پروفیسرسحرانصاری


پروفیسرسحرانصاری

 نائب معتمدِادبی اُمور
 انجمنِ ترقّئ اُردو پاکستان، کراچی
 سحرانصاری کا تعلق مرادآباداور میرٹھ سے ہے، ان کے والدین مرادآباد سے دکن چلے گئے تھے وہیں سحرانصاری پیدا ہوئے۔ وہ حیدرآباد دکن سے ابتداہی میں کراچی آگئے تھے۔ آج سے تیس پینتیس برس پہلے کراچی میں ’’لوح وقلم‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلس ہوا کرتی تھی جس کی ادبی، شعری اور تنقیدی نشستیں پابندی سے ہوا کرتی تھیں جہاں نئے لکھنے والے بھی متعارف ہوتے تھے انہی نوواردوں اور تازہ کارلکھنے والوں میں انورمقبول انصاری پھر الم انصاری بھی تھے جو بعدمیں سحرانصاری کے نام سے معروف ہوئے۔’ ’بنیادی جمہوریت‘‘ کی ادارت، برٹش انفارمیشن کی افسری، کوئٹہ یونی ورسٹی سے کراچی یونی ورسٹی تک کا سفرسحرانصاری کے علمی وادبی سفرکی داستان ہے۔ادب وشعر سے ان کا واسطہ پورے انہماک سے جاری رہا۔ اس دوران اُنھوں نے ناموری کی دہلیز پر بھی قدم رکھا اور نام بھی خوب کمایا۔ عزت اور محبت بھی پائی۔ انگریزی ادب میں ایم اے کے بعد اردواور لسانیات میں ایم اے کیا،پھر کوئٹہ یونی ورسٹی میں شعبہ اردو سے منسلک ہوگئے۔ کچھ ذاتی وجوہ کی بنا پر استعفیٰ دے کر کراچی آنے کے بعد کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں استاداور صدرشعبہ مقرر ہوگئے۔ وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے اور طلبہ وطالبات میں ایک مہربان اور مشفق استاد کی حیثیت سے مقبول رہے۔ وہ ایک ذہین، سنجیدہ ادیب وشاعر ہیں۔ادب وشعرمیں ان کا اسلوب قلب ونظر کو گرماتا ہے، متاثرکرتا ہے۔اُنھوں نے مضامین کے انبار نہیں لگائے لیکن جو کچھ اور جتنا کچھ بھی لکھا وہ اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم ونثرمیں اُنھوں نے لوگوں کو اور خاص کرادب کے قاری کو ٹھہرکرسننے پر آمادہ کیا ہے۔ شعروادب کے معاملے میں کسی رورعایت کے قائل نہیں، جو بات کہنی ہوتی ہے اسے واضح اور دوٹوک انداز میں کہہ دیتے ہیں، لگی لپٹی نہیں رکھتے اور نشتربھی نہیں چلاتے۔ ان کے فکری تجربوں سے جانے کتنے نوواردانِ بساطِ ادب کسبِ فیض حاصل کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ سحرکی نثری خوبی ان کی سلاست اور مفہوم کی سادگی ہے۔ ان کے ہاں ناقدانہ ابہام نہیں ہے اور نہ بے جاتعریف وتوصیف کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ بے شک نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے رعایت کا ایک گوشہ بھی ان کی تحریروں میں ملتا ہے، مگر بس تھپکی دینے اور حوصلہ بڑھانے کی حد تک۔
 سحرانصاری کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل ایک مجموعہ ’’نمود‘‘ کے نام سے ۱۹۷۶ء میں شایع ہوا تھا۔ اُس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا ۔ ان کی شاعری میں نہ وہ آہ وبکا کا چرچا ہے نہ احتجاج ، نہ وحشت، محرومیوں اورمایوسیوں کا اظہار ملتا ہے جو آدمی کو زندگی ترک کرنے پر اُکسائے۔ ان کی شاعری ناشاد اور نامراد لوگوں کی شاعری نہیں ہے۔ یہ تو حوصلے تازہ کرتی اور جستجو بیدار کرتی ہے۔ یہ اُمنگیں پیدا کرتی اور زندگی سے نبردآزمائی کا فن سکھاتی ہے۔ سحرغم کے نہیں بلکہ تہذیبِ غم کے شاعر ہیں۔ شایستگئ غم نے ان کی شاعری میں متانت اور ان کی ذات کے رویے متعین کردیئے ہیں اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ نثرنگار اچھے ہیں یا شاعر۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں اوصاف میں وہ ایک امتیاز رکھتے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کی تعداد خاصی ہے۔ افکار کے جوش نمبر، فیض نمبر، سلورجوبلی نمبر،احمدندیم قاسمی نمبر، اخترحسین رائے پوری نمبر، علی سردار جعفری نمبر میں مقالات شائع ہوئے۔ ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘، ’’فنون‘‘ اور کتابوں میں بھی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، آج کل انجمن ترقی اردو پاکستان میں نائب معتمدِادبی اُمورکی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 دیگرتفصیلات:
۱۔پاکستان آرٹس کونسل، کراچی کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین۔
 ۲۔شعبہ اردو پاکستان اسٹڈیز سینٹر، جامعہ کراچی میں مہمان پروفیسر۔
 ۳۔اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے تاحیات رکن۔
 ۴۔۲۰۰۵ء میں حکومتِ پاکستان نے تمغۂ امتیاز عطا کیا۔
 تصانیف وتالیفات:
۱۔’’نمود‘‘(شعری مجموعہ)۱۹۷۶ء۔ دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۰ء۔
 ۲۔’’خدا سے بات کرتے ہیں‘‘ (شعری مجموعہ) ۲۰۱۰ء
 ۳۔’’فیض کے آس پاس‘‘ (نثر) ۲۰۱۱ء
 ۴۔’’مقالاتِ جوش‘‘ (ترتیب وتدوین) ۱۹۷۰ء
 ۵۔مدیراعلا: اردو ڈکشنری بورڈ ۱۹۹۸ء تا ۲۰۰۰ء
 ۶۔دنیا کے کئی ممالک میں ادبی اور تدریسی رُخ سے پاکستان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔
 ۷۔’’پردہ سخن کا‘‘ (نثری مضامین) زیرِطبع
 ۸۔ ’’مگر اب شام ہوتی جارہی ہے‘‘ (یادیں) زیرِطبع